حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
سفر سے واپس آیا تو‘ گھر والوں نے ڈاک حوالہ کی پہلا خط کھولا تو ضلع گیابہار کی ایک مظلوم شریف زادی کا خط تھا‘ جس میں ایک مسئلہ دریافت کرنے کیلئے یہ مضمون لکھا تھا:
محترم چچا جان السلام علیکم! امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ بڑی تلاش کے بعد آپ کا پتہ ملا‘ ایک ضروری مسئلہ معلوم کرنے کیلئے آپ کو زحمت دے رہی ہوں میں بہار کے ضلع گیاکے ایک قصبہ سے ایک نیک دین دار اور پڑھے لکھے مسلمان کی بیٹی ہوں‘ میرے والد ایک دینی جماعت سے جڑے ہوئے ایک سرکاری مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں‘ میری والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں‘ اپنے والد کی ہم چار بیٹیاں ہیں‘ چاروں قبول صورت اور گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ہیں‘ ہمارے والد کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں ہماری والدہ کی بیماری کے ساتھ گھر کے اخراجات مشکل سے پورے ہوتے ہیں‘ اب ہماری شادیوں کیلئے جو جہیز اور تلک کے مطالبات ہیں‘ ہمارے والد ان کو پورا کرنے کے قادر نہیں ہیں‘ اس کی وجہ سے ہم چاروں بہنیں اپنے والدین کیلئے بوجھ اور عذاب بن گئی ہیں‘ کب سے ہم نے اپنے والد اور والدہ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا‘ رات میرے والد کی ہچکیوں سے میری آنکھ کھل گئی‘ تہجد میں اپنے رب سے فریاد کررہے تھے‘ میرے رب! میری پھول سی بچیاں مجھ پر عذاب بن گئی ہیں‘ مولائے کریم آپ اس عذاب سے مجھے کب نجات عطا فرمائیں گے۔ چچا جان! مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہمارے لئے اس حال میں بھی خودکشی جائزنہیں۔ (والسلام! آپ کی بھتیجی)
یہ خط کسی ایک شریف زادی کا نہیں بلکہ ان لاکھوں مظلوم دوشیزائوں کی المناک داستان ہے جن کی جوانی ملت کے مالداروں کی شادیوں میں فضول خرچیوں اور اسلام کے مثالی آسانی اور سادگی کے نظام معاشرت کو چھوڑ کر غیر اسلامی رسم و رواج جہیز اور تلک کے مطالبات کی حد تک بڑھے ہوئے ظالمانہ طور طریقوں کی وجہ سے اپنے والدین کیلئے بوجھ اور عذاب بنی ہوئی ہیں اور ان میں سے خاصی تعداد ایسی مظلوم دو شیزائوں کی بھی ہے جنہیں اس ظالمانہ رسم و رواج اور مال کی بھوک کے نظام کی وجہ سے شادیوں کی خوشی سے محروم ہی رہنا پڑتا ہے‘ کیسا افسوسناک ہے یہ حال اس ملت کا جس کو مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے اور جس کو اس کے نبی رحمۃ للعالمینﷺ نے اسلام جیسا محبت بھرا نظام عطا فرما کر: من ضیق الدنیا الی سعتھا دنیا کی تنگی سے اسلام کی وسعت کی طرف ومن جور الادیان الی عدل الاسلام اور مذاہب کے ظلم و جور سے اسلام کے انصاف کی طرف‘ نکالا گیا تھا مگر اسلام کا دم بھرنے والے ہم مسلمان اسلام کے اس آسانی اور سادہ معاشرہ کے نظام کو چھوڑ کر جس کا بہت ہی رحمت بھرا نظام اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے عمل اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس پر ڈال کر ہمارے لئے چھوڑا تھا‘ آسانی سے تنگی کی طرف اور اسلام کے عدل و رحمت کے نظام سے غیر اسلامی ظالمانہ رسم و رواج کے بندھن میں اپنے کو باندھتے چلے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہادر اور جیالے اسلام کے سپاہی اٹھیں اور ان لاکھوں مظلوم دو شیزائوں کے زخموں کا مرہم بن کر فضول خرچی‘ اسراف اور حرص و ہوس کے شادی باہ کے نظام کے خلاف کھڑے ہوں‘ اوراعظم النکاح برکۃ ایسرہ مئونۃ (سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں مالی بوجھ کم ہو) کی عملی تصویر پیش کرکے اس ظالمانہ دھارے کا رخ بدل دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں